خطاب بہ جوانان اسلام Flashcards
(22 cards)
خطاب بہ جوانان اسلام کے شاعر
علامہ محمد اقبال( 1877-1938)
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھاتو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا
مفہوم
اے مسلم نوجوان کبھی گور و ہورس بھی کیا تو نے کلک کی اس عظیم قوم سے تیرا تعلق ہے
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارہ
مفہوم
تجھے اس قوم نے اپنی آغوش محبت میں پالا ہے جس نے سلطنت ایران کو تسخیر کیا تھا
فتح دی تھی
تمدن آفرین خلاک آئین جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شثر بانوں کا گہوارا
مفہوم
دشت عرب جو کہ اونٹ چلانے والوں کا مسکن ہے کہ مکینوں کے رہنے رہن سہن کے طور طریقے وضع کیے اور دنیا کو قران کے قوانین و دستور سے آگاہ کیا
سماں الفقر فخری کا رہا، شان امارت میں
بآب رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا
مفہوم
ان صحرانشیوں نے اپنی حاکمیت اور عروج کے دور میں بھی فقر اپنائے رکھا کیونکہ خوبرو چہرے کو ظاہری آرائش کی ضرورت نہیں ہوتی
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کانہ تھا یارا
مفہوم
تمہارے اباؤ اجداد عالم غربت میں بھی اس قدر غیرت مند تھے کہ امیر کو صدقہ حیرات دیتے وقت یہ خوف ہوتا تھا کہ کہیں غریب شخص ٹھکرا نہ دے
اگرچاہوں تونقشہ کھینچ کرالفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فضوں تر ہے وہ نظارہ
مفہوم
اے نوجوان اگر میں چاہوں تو تیرے اباؤ اجداد کی عظمت کو تیری آنکھوں پر آشکار کر سکتا ہوں مگر یہ تیرے فہم و ادراک کی حدود سے بھی بالاتر رہا
مجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارا
مفہوم
اے نوجوان مسلم تجھے اپنے ابا و اجداد سے کوئی تعلق نہیں تو باتیں بنانا جانتا ہے جبکہ وہ عمل کرتے تھے تو ایک جگہ رکا ہوا ہے جبکہ وہ متحرک تھے
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریہ سے زمین پر آسماں نے ہم نے دیکھ مارا
مفہوم
اپنے بزرگوں کا چھوڑا ہوا دینی اور دنیاوی ترکہ ہم نے گنوا دیا ہے جس کی وجہ سے آج ہم عروج سے ہٹ کر زوال کا شکار ہو گئے ہیں
حکومت کا تو رونا کیا وہ ایک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا
مفہوم
یہ دنیا کا تسلیم شدا سچا قانون ہے کہ حکومت عارضی شے ہے
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں توںدل ہوتا ہے سیپارا
مفہوم
جب اپنے بزرگوں کی کتابیں یورپ کے کتب خاانوں میں دیکھتا ہوں تو میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے
غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشاکن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخارا
مفہوم
گنی ذرا حضرت یعقوب کی آزمائش تو ملاخطہ ہو کہ ان کی آنکھوں کا نور (حضرت یوسف) ذلیخا کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں
دیکھو تو صحیح تم کس قوم کے ٹوٹے ہوئے تارے ہو پر شعر
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل! کہ تو
قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایا بھی ہے
تمہارے اباؤ اجداد زمانے میں بہت معزز تھے پر شعر
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
ایران وغیرہ کو فتح کرنے والے اباؤ اجداد تھے تمہارے پر شعر
نہ ایران میں رہے باقی نہ تو راں میں رہے باقی
وہ بندے کہ فقر جن کا تھا ہلاک قیصر و کسریٰ
دربانوں نے تہذیب و تمدن کی روشنی چلائی یعنی قوانین وغیرہ سکھائے پر شعر
تہذیب کی شمع روشن کی اونٹوں کے چرانے والوں نے
کانٹوں کو گلوں کی قسمت دی، زروں کے مقدر چمکائے
ہمارے ابا استاد کو کسی اچھے کپڑوں وغیرہ کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ ویسے ہی خوبصورت تھے پر شعر
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
کہ دیکھو خوش نما لگتا ہے کیسا چاند بن گہنے
ہمارے اباؤ اجداد بہت غیرت مند تھے پر شعر
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا
ان کی عظمت تیرے فہم و ادراک کی حدود سے بالاتر ہے پر شعر
ان کی عظمت کا ذکر ہے بے شک
تیرے حد خیال سے بھی پرے
تم ثابت ہو اور تمہارے اباؤ اجداد سیارہ یعنی متحرک تھے ہر وقت پر شعر
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو!
ہمارے اباؤ اجداد نے بہت محنت کی جو میراث پائی تھی ہم نے ان سے پر شعر
جو کچھ ہیں وہ سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت
شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت کا گلہ ہے
ہمارے بزرگوں کی کتابیں یورپ میں ہونے پر شعر
ہمارے بزرگوں کی علمی کتابیں
کتب خانہ یورپ کے معمور ان سے