میدان کربلا میں صبح کا منظر Flashcards
(6 cards)
میدان کربلا میں صبح کا منظر کے شاعر
میر انیس (1800- 1874)
میدان کربلا کا main شعر
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
ٹھنڈی ہوا میں سبزہ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلس زنگاری فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
مفہوم
دشت کربلا میں ٹھنڈی ہوا سے گھاس جھوم رہی تھی۔ سبز گھاس سے نیلا آسمان بھی شرما رہا تھا۔ درختوں کے جھومنے سے اور پھولوں کی پتیوں پر شبنم کی قطروں پر ہیرے جواہرات قربان ہو رہے تھے۔ ہر درخت کے پتے بھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہیرے ٹانک دیے گئے ہوں
وہ نور اور وہ دشت سہانا سا، وہ فضا
درج وہ کبک اور تیہو و طاؤس کی صدا
وہ جوش گل، وہ نالہ مر غانے خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی، صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر، سرخ پوش تھے
تھالے بھی نخل کے سبد گل فروش تھے
مفہوم
خوبصورت صحرا میں خوشگوار ہوا بھی تھی دراج و کبب(تیتر اور چکور) اور تہیو و طاؤس(تیتر اور مور) کی آوازیں آرہی تھی۔ پھولوں پر بھی ہے جان طاری تھا اور خوش اواز پرندے گیت گا رہے تھے۔ صبح کی ٹھنڈی ہوا سے سردی کا احساس پیدا ہو رہا تھا۔ سر سبز درختوں کو پھولوں کی کثرت نے سرخ کر دیا تھا یوں لگتا تھا جیسے درختوں کے ارد گرد زمین کسی گل فروش نے پھولوں سے بھر رکھی ہو۔
دشت
نسیم
جا بجا
گہرائے اب دار
بالائے نخر
جوا خاں
ذیب گلشن زہرا
کٹورے
ہرے بھرے دشت میں (صحرا میں) صبح کی ٹھنڈی ہوا( نسیم) چل رہی تھی پھولوں پر چمکدار موتی جڑے ہوئے تھے درختوں کی شاخیں بھی ٹہل رہی تھی ایک درخت کے اوپر (بالائے نخل) اگر ایک بلبل تھا تو پھول ہزار تھے اہل بیت جنہیں پانی مطلوب تھا ان کے لیے گلاب نے ایک شگوفوں میں پانی اکٹھا کیا