میر کی غزلیں Flashcards
(30 cards)
(وری کا، گری کا ) کس کی غزل ہے
میر تقی میر
موت ہر کسی کو آنی ہے پر شعر
موت سے کس کو رست گاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
مرنے کے بعد سب کچھ یہاں چھوڑ جائے گا پر
شعر
جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہوگا
دو گز کفن کا ٹکڑا تیرا لباس ہوگا
پہلے اکڑ کے چلتے تھے اب انہیں بھیک بھی نہیں ملتی پر شعر
دلی میں آج بھیک بھی نہیں ملتی انہیں
تھاکل تلک دماغ جنھیں تاج و تخت کا
جتنا بھی تکبر ہو بعد میں کوئی نام و نشان نہیں بچنا پر شعر
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے
عشق میں مشکلات پر شعر
یہ عشق نہیں اسان، اتنا سمجھ لیجیے
ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے
عاشق کے ظلم پر شعر
باز آجاؤ ظلم سے ہمدم
ورنہ ایک روز حشر کا بھی ہے
شیشہ کے ٹوٹنے پر شعر
ٹوٹ جائے تو پھر نہیں جڑتا
یہ صفت آئینے میں دیکھی ہے
گلوں کی زندگی قلیل ہونے پر شعر
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
میرا خزاں کے موسم میں دل نہیں لگتا پر شعر
لگتا نہیں ہے دل مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
شاعر کے مرنے کے بعد عاشق کے آنے پر شعر
میرے مرنے کے بعد آؤ گے
کیا زمانے کو منھ دکھاؤ گے
جب تک میری زندگی ہے تو ا جاؤ پر شعر
آ بھی جاؤ کہ وقت نازک ہے
زندگی لوٹ کر نہیں آتی
میرا درد سننے والا کوئی نہیں پر شعر
ہر کوئی اپنے غم میں ہے مصروف
کس کو درد آشنا کہے کوئی
شاعر کے غم کی انتہا پر شعر
آ مجھے دیکھ،جسے دیکھ کے دنیا کہہ دے
ہم نے پھرتا ہوا، بازار میں غم دیکھا ہے
محبت میں ناکامی کے باوجود محبوب پر جان نثار کرنے پر شعر
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
کاش یہ جان اللہ پر نثار کی ہوتی پر شعر
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
شعر کے ذریعے دل کی بات کہنے پر شعر
فراق اے کاش!سننے والوں کے سینے میں دل ہوتا
حقیقت ہوتی ہے اشعار میں باتیں نہیں ہوتی
عشق میں تنگدستی یا مشکلات پر شعر
اذیت، مصیبت، ملامت، بلائیں
تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
عاشقی سے غم ملنے پر شعر
مری ہر خوشی تھی تری خوشی سے پہلے
مجھے کوئی غم نہیں تھا غمِ عاشقی سے پہلے
(اے کاش) کس کی غزلیں ہیں
میر تقی میر
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
مفہوم
جس شخص کو آج شہنشاہی کا غرور ہے وہ سن لے کہ کل اس کی موت پر لوگ ماتم کر رہے ہوں گے
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
مفہوم
دنیا میں ہر مسافر کا اسباب راستے میں لٹ جاتا ہے گویا کوئی بھی اس دنیا سے سلامت نہ جا سکا
ہر زخم جگر داور محشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تیری بیداد گری کا
مفہوم
اے محبوب ہمارے قلب و جگر پر لگا ہوا ہر زخم روز قیامت اللہ تعالی سے تیرے ظلم و ستم کے خلاف انصاف مانگے گا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا
مفہوم
یہ دنیا شیشہ سازی کے کارخانے کی مانند ہے لہذا انسان کو چاہیے کہ نہایت احتیاط سے دنیا میں زندگی بسر کریں